116

کشمیر کس کا ہے؟؟ تحریر . .. قمر علی وڑاٸچ

کالم عنوان .
کشمیر کس کا ہے؟؟
تحریر . .. قمر علی وڑاٸچ
عرصہ دراز سے ایک ہی آواز سنتے آئے ہیں ایک ہی نعرے کی گونج کو ہم نے سنا اس نعرے میں اس آواز میں نہ صداقت کی نہ جذبہ تھا نہ ہی شوق تھا اور نہ ہی خون کی وادی کو آزادی دلانے کا جذبہ تھا یہ کھوکھلی آوازیں سن سن کر اب تو کان پک گئے تھے یہ نعرہ صرف چند سیاسی لوگوں کے مفاد کے نعرے تھے ان سیاسی لوگوں کی سیاست کو چمکانے کے نعرے تھے اور ان چند سیاسی لوگوں نے معصوم عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر 5 فروری کا دن اپنے چہرے کو سامنے لانے کے لیے نعرہ لگانے کے لیے رکھا تھا جسے آج تک عوام نہ سمجھ سکی اور نہ سمجھنا چاہتی ہے کشمیر کی آزادی کے نعروں سے نہیں ہماری جھوٹی سیاست سے نہیں ہمارے بزدلانہ قدم سے نہیں بلکہ وہ لہو سے لہو مانگتی ہے کشمیر کی وادی ایک ایسا سچا جذبہ مانگتی ہے جس جذبے میں اگر کشمیر کی بیٹی کے سر سے دوپٹہ اترتا ہے تو وہ جذبہ یہ سمجھے کہ میری بیٹی کے سر سے دوپٹہ اتر گیا ہے اگر کشمیر کی کسی ماں کا بیٹا اس سے دور ہوتا ہے تو پاکستان کی معیشت سمجھے کہ میرا بیٹا مجھ سے دور ہوا ہے مطلب کشمیر کی ماں نہیں اپنی گود خالی کرتی کشمیر کا بیٹا اپنا اپنی وادی کی خاطر لہو پیش نہیں کرتا کشمیر کا باپ اپنے لخت جگر سے دور نہیں ہوتا حقیقت میں یہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ سب کچھ ہم سے چھینا جا رہا ہے لیکن کشمیر کی وادی جسے جنت نظیر کہا جاتا تھا آج وہ وادی لہو لہان ہے آج وہ وادی بے سروسامانی کی حالت میں یتیمی کی زندگی گزار رہی ہے ماؤں کی گودیں خالی کی جا رہی ہیں باپ اپنے لخت جگر سے علیحدہ ہو رہے ہیں بہنیں نے اپنے بھائی کھو رہی ہیں چیخ و پکار کرتی ہوئی یہ وادی اب جنت نہیں آگ کا سمندر نظر آتی ہے خون کے بہتے اس دریا کو اب جنت کون کہے گا ان معصوم زبانوں پر اب بھی یہ نعرہ ہے کشمیر بنے گا پاکستان لیکن یہاں پر کان سے جوں تک نہیں رینگتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی یہ بے خبرے لوگ تو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں اور آج تک پاکستان یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکا کہ کشمیر کس کا ہے یہ جنت نظیر جس کو جلتی وادی بنا دیا گیا ہے یہ وادی کس کی ہے یہ کشمیر پورے عالم اسلام کے آگے گڑگڑا رہا ہے خدا کے واسطے ہمارے لئے 5 فروری کا دن ہی کیوں مقرر کیا ہوا ہے اہل اسلام قدم آگے بڑھاؤ ہماری لٹتی ہوئی عصمتوں کو بچاؤ ہم عرصہ دراز سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ہمیں آزادی سے جینا سکھاؤ آزادی ہمارا حق ہے ہمیں ان کافروں سے نجات دلاکر آزادی آزاد زندگی جینے کا حق دلاؤ کیا صدا ہماری ہی گودیں اجڑتی رہیں گی کیا صدا ہماری ہی عصمتیں لٹتی رہیں گی اے اہل اسلام کیا تم میں کوئی بھی اب محمد بن قاسم خالد بن ولید نہیں پاکستانیوں تم پر ہم اپنے سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں کیا تمہیں بھی ہماری تکلیف کا احساس نہیں کیا تم پاکستان والے بھی اس خیال میں ہو کہ سوچ رہے ہو کشمیر کس کا ہے ہم نے تو ہمیشہ یہی نعرہ لگایا کشمیر بنے گا پاکستان پھر تم کیوں سوچ میں پڑ گئے اس کشمیر کی آواز کو سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہا ہمارے جذبے مٹ گئے ہیں ہمارے حوصلے ختم ہوگئے ہیں ہم نے کفر کو اپنے اوپر سوار کر لیا ہے ایک خانہ بدوش قبیلہ شاہ سلیمان ارتغل غازی سلیمان چھ سو سال حکومت کرتا ہے وہ خانہ بدوش قبیلہ اور آپ ایک آزاد ریاست لے کر بھی ڈرے سہمے بچے کی طرح اپنی دلوں میں چھپے بیٹھے ہیں پوری دنیا میں اگر اسلام کا نعرہ لگانے والے دیکھ لو تو آپ کو سب سے زیادہ نظر آئیں گے لیکن چند سفید چمڑی والے گورے ہم پر راج کرتے نظر آرہے ہیں ہم ایک خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرنے والے ان کے مٹی کے بھگوانوں سے ڈر کر گھر بیٹھے ہوئے ہیں آج بھی فیصلہ کر لو اور دل کو تسلی دے کر یہ بات باہر نکلو کشمیر ہمارا ہے اور جب تک کشمیر ہمارا نہیں ہو جاتا ہم سکھ کا سانس نہیں دیں گے اور کشمیریوں کے درد کو اپنا درد سمجھ کر کبھی بھی آرام کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے اور اپنے ذہن میں کبھی یہ سوال پیدا نہیں کریں گے کہ کشمیر کس کا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں