71

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دنیا کے اکثر ممالک اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں دعوتِ دین اولیائے کرام کی کوششوں اور عملی کردار سے پھیلی ہے

آستانہ عالیہ ڈھوڈا شریف
کی علمی و اصلاحی خدمات کا جائزہ
علامہ حافظ محمد تنویر قادری وٹالوی
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دنیا کے اکثر ممالک اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں دعوتِ دین اولیائے کرام کی کوششوں اور عملی کردار سے پھیلی ہے۔ان ہستیوں کی شبانہ روز کاوشوں سے مختلف مماملک میں رہنے والے لاکھوں افراد جامِ توحید اور مئے رسالت سے نہ صرف خود سرشار ہوئے بلکہ ان کی نسلیں بھی اسی راستے پر چلیں اور آج بھی ان میں اس کے اثرات نمایاں ہیں اور تاقیامت یہ فیض جاری و ساری رہے گا۔انہوں نے بھولی بھٹکی مخلوق کو نہ صرف رب تعالیٰ سے متعارف کروایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کامیاب زندگی گذارنے کا طریقہ بھی سیکھایا۔ ان اولیاء کرام نے صرف اپنے حجروں میں بیٹھ کر ذکر واذکار میں ہی وقت نہیں گزارا بلکہ بوقت ضرورت میدان عمل میں اتر کرباطل کو للکارنے اور اسے کیفر کردار تک پہنچانے کا فریضہ بھی سر انجام دیا ہے۔ماضی قریب میں قیامِ پاکستان سے روس کے ٹوٹنے ،افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام اور ترکی میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ وغیرہ میں ان کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ دورحاضر میں جب ہر طرف مغربی تہذیب کے اثرات انسانی اخلاق و آداب کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور غلط افکار و نظریات نے نسل نو کو ہر طرف سے گھیرے میں لیا ہوا ہے تو اس وقت بھی اگر کہیں اسلام کی فائدہ مند اور روح کو تازگی بخشنے والی بہاریں اور اسلامی تہذیب و تمدن کے جو آثار موجود ہیں وہ انہی صوفیاء کرام کے دمِ قدم سے ہیں۔ان صوفیاء کرام نے خانقاہیں اسی مقصد کے لیے قائم کیں تھیں۔ ان کے ساتھ مسجد ،مدرسے اور لنگر خانے کا قیام اسی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔جن خانقاہوں نے برصغیر پاک و ہند میں اسلامی معاشرے کے قیام اور لوگوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کے لیے کامیاب کوششیں کی ہیں ان میں آستانہ عالیہ قادریہ قاسمیہ ڈھوڈا شریف کا نام نمایاں ہے۔اس آستانے کا شمار صوبہ پنجاب کی اہم علمی و روحانی خانقاہوں میں ہوتا ہے یہ آستانہ شہر گجرات سے شمال مشرق کی جانب تقریبا 30 کلومیٹرکی مسافت پر جلالپور جٹاں کے قریب واقع ہے۔اس آستانہ کے مشائخ کا تعلق تصوف روحانیت کی ایک اہم شاخ سلسلہ قادریہ سے ہے، جس کے روحِ رواں حضرت غوث الثقلین الشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ان بزرگوں کا یہ سلسلہ 42 واسطوں سے حضور سید دو عالم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ ان کا نسبی تعلق اعوان قبیلہ سے ہے اور یہ تعلق 28 واسطوں سے حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچتا ہے۔ ان کا آبائی علاقہ انگہ شریف ضلع خوشاب ہے۔اسی مقام پر اس خانوادہ کےعظیم فرد حضرت خواجہ پیر محمد قاسم قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو قطب الاقطاب حضرت سید احمد میراں بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ(بھیرہ شریف) نے سلسلہ قادریہ میں بیعت فرمایا اور روحانی مدارج طے کروانے کے بعد خرقۂ خلافت سے نوازا۔ ایک عرصے تک ان بزرگوں نے انگہ شریف کو ہی اپنا تبلیغی مرکز بنائے رکھا۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے سرگودھا،جہلم،راولپنڈی، میرپور بھمبر،جموں ، گجرات اور سیالکوٹ وغیرہ مختلف علاقوں میں تبلیغی دورے کیے اور بطور خاص اُن پہاڑی اور دیہاتی علاقوں میں جہاں اس زمانے میں آمد و رفت کے کوئی خاص ذرائع نہیں تھے پہنچ کر دین کا پیغام عام کیا اور لوگوں کو رموزِ زندگی اور اللہ تعالی کی بندگی کے طریقے سکھائے۔ اس سلسلہ کے تین بزرگوں(حضرت خواجہ پیر محمد قاسم قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ،حضرت خواجہ پیر محمد چراغ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ،حضرت خواجہ پیر محمد فاضل صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ) کے مزارات انگہ شریف میں مرکز انوار و تجلیات ہیں۔ پھر اس سلسلے کے ایک عظیم فرد حضرت پیر گل پیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو حضرت سید احمد میراں بادشاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روحانی اشارے سے ڈھوڈا شریف میں خانقاہ قائم کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔یہ اس سلسلے کے پہلے بزرگ تھے جو ڈھوڈا شریف تشریف لائے،یہاں خانقاہ قائم کی اور اس ویران بستی کو اللہ کے ذکر اور دین اسلام کی شعاؤں سے منور کر کے آباد و خوشحال کر دیا۔ انہی کی برکت سے یہ بستی ڈھوڈا کی بجائے ڈھوڈا شریف بنی اور طالبان حق کی توجہ کا مرکز ٹھہری۔کسی بھی داعی کی دعوت کی اثر انگیزی کا جائزہ لینے سے پہلے اس کے حلقہ دعوت میں موجود لوگوں کے سابقہ حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے،پھر اس کی دعوت کے بعد کی صورتحال سے اس کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ اس سے اس کی محنت اور دعوت کی اثر انگیزی نکھر کر سامنے آتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں جب حضرت پیر گل حسن قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ڈھوڈا شریف میں آ کر یہ مرکز رشد و ہدایت قائم کرکےمتحدہ ہندوستان کے جن علاقوں کو اپنی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کے لیے منتخب کیا وہاں کے لوگوں کی نظریاتی اور عملی صورتحال کیا تھی:
• بہت سے مسلمانوں کو کلمہ طیبہ تک سیدھا پڑھنا نہیں آتا تھا۔
• لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات اور بنیادی دینی تعلیمات سے ناواقف تھے۔
• صرف دنیا کے کاموں میں محنت و مشقت کرنا،میلوں ٹھیلوں میں جانا اور فارغ وقت فضول مجالس میں گزار دینا ان کا مشغلہ تھا۔
• وہ مسلمان تو تھےہی لیکن اپنی پہچان اور ذمہ داری سے غافل تھے۔
• ضلع جموں کے لوگ شرعی لباس کی بجائے عام حالات میں صرف لنگوٹ (ایسا کپڑا جس سے مکمل شرعی پردہ نہ ہو سکے) پہنتے تھے۔
• بے شمار مسلمان ایسے تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان آکر پہلی دفعہ اذان سنی تھی اور انہیں نماز روزے سے بھی واقفیت یہی آ کر ہوئی تھی اور وہ اذان وغیرہ سن کر حیرانگی سے پوچھتے تھے کہ یہ کیا چیز ہے؟
• ان مسلمانوں کے ہاں شادی بیاہ، خوشی وغمی میں ساری رسومات ہندؤوں والی تھیں۔
• بطور خاص ڈھوڈا شریف کے باسیوں کی معاشی حالت بہت کمزور تھی،یہاں تک کہ گاؤں میں ضرورت کا پانی بھی بہت مشکل سے دستیاب ہوتا تھا۔
یہ حالات تھے ان علاقوں کےجن کو حضرت پیر گل پیر صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور آپ کی اولاد نے اپنی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کے لیے منتخب فرمایا تھا۔اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے ان پڑھ اور دین سے دور لوگوں کو ان بزرگوں نے کتنی محنت، مشقت اور جان سوزی سے دین کا شعور ، احکامات شریعت سے واقفیت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ﷺ کے منشاء کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔ مشائخ ڈھوڈا شریف کی اس محنت کو ہم تین مراحل میں تقسیم کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دعوت و تبلیغ کا پہلا مرحلہ:
مشائخ ڈھوڈا شریف نے اسلام کے دعوتی اسلوب کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب حکمت عملی کے ساتھ تدریجًا اپنے حلقہ ارادت کی اصلاح کا انتظام فرمایا۔یہ کام کرتے وقت یہ قرآنی آیت اور رسول اللہ ﷺکے ارشادات گرامی ضرور ان کے پیش نظر تھے.
“(اے محبوب ! ) بلائیے (لوگوں کو) اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت سے اور عمدہ نصیحت سے اور ان سے بحث (و مناظرہ) اس انداز سے کیجیے جو بڑا پسندیدہ (اور شائستہ) ہو”۔(سورۃ النحل : آیت 125 )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا ( حاکم بناکر بھیجتے وقت انہیں ) ہدایت فرمائی تھی کہ تم ایک ایسی قوم کی طرف جارہے ہوجو اہل کتاب یہودی اورنصرانی وغیرہ میں سے ہیں ، اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں اس کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر اس میں وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ ان پر پانچ وقت کی نماز یں فرض کی ہیں ، جب یہ بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو بھی فرض کیا ہے ، جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور انہیں کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی ۔
(صحیح بخاری،رقم الحدیث: 4347)
حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں رسول محتشم ﷺنے داعی کے اوصاف اور دعوت و تبلیغ کے اصول و ضوابط واضح فرمادیے کہ تم ایسے خطے میں جا رہو ہو جہاں کہ لوگ دین اسلام ،اس کی تعلیمات اور اس کے احکامات سے ناواقف ہیں لہذا تم نے تدریجاً(Step by step) ان کو یہ احکامات سکھانے ہیں۔مشائخ ڈھوڈا شریف نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کی سیرت و تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے اسی طریقہ کار کو اپنایا اور اسی ترتیب اور تدریج کو پیش نظر رکھا۔ لوگوں کی نفسیات اور علاقے کے ماحول کے مطابق ان کی دینی و اخلاقی تربیت و اصلاح کی۔عقل و نفسیات،مقام و مرتبہ اور عہدہ و منصب کا لحاظ رکھنا نبی کریم ﷺ کی مبارک سنت بھی ہے:
• حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
“رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لوگوں کے مرتبہ کے مطابق پیش آنے کا حکم ارشاد فرمایا”(مسند أبو يعلى: 8/ 246)
ان بزرگوں کی دعوت و تبلیغ کا پہلا مرحلہ حضرت پیر گل پیر قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے حضرت قبلہ پیر محمد شفیع قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے اخری دور تک ہے۔ اس دور میں انہوں نے عوام الناس کے اندر مذہبی شعور کی بیداری کے لیے اس اسلوب پر نسل در نسل محنت کی۔
• حضرت پیر گل پیر قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ڈھوڈا شریف گاؤں کے سرکردہ اشخاص چوہدری فتح محمد،سائیں فتح محمد،چوہدری مولا داد ،چوہدری سلطان علی ،چوہدری نواب دین وغیرہ کو بلایا اور ان کی توجہ احکامات خداوندی اور شریعت مصطفیﷺ کی طرف مبذول کروائی اور انہیں اس پر عمل کی ترغیب دی۔ڈھوڈا شریف کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے آپ روزانہ رات کو محلے کے ارد گرد ذکرِ الہی کرتے ہوئے چکر لگاتے، نوافل ادا کرتے ہیں اور دعا فرماتے:
” اے مولا کریم اس خطہ کو شاداب و خوشحال کر دے”.
آپ کی دعاؤں کی برکت سے یہاں خشک نالے میں پانی جاری ہو گیا،جس سے پانی کی قلت بھی دور ہوئی اور علاقہ بھی سر سبز و شاداب ہو گیا۔آپ روزانہ عشاء کی نماز کے بعد تمام نمازیوں کو ساتھ لے کر بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے گاؤں کا چکر لگاتے اور نماز و دیگر دینی فرائض میں کوتاہی کرنے والوں کی سرزنش فرماتے،اس کا عوام پر بہت اثر ہوا اور لوگ عمل کی طرف راغب ہوئے۔جو لوگ سمجھانے کے باوجود غیر شرعی حرکات سے باز نہیں آتے تھے آپ ان کے حق میں ہدایت کی دعا بھی فرماتے اور توبہ کرنے تک ان سے تعلق بھی منقطع فرما دیتے. آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت پیر سید امیر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ دربار عالیہ کے سجادہ نشین منتخب ہوئے، پھر ان کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت پیر محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ سجادہ نشین منتخب ہوئے ۔ان دونوں ہستیوں نے بھی حضرت پیر گل پیر قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح دعوت و تبلیغ اور دینی احکامات کے نفاذ کا سلسلہ جاری رکھا، ان دونوں بزرگوں کے تبلیغی کام کی چند خصوصیات یہ تھیں:
انہوں نے دعوت و تبلیغ دین کے لیے دور دراز علاقوں کے سفر کیے،اپنے آرام کو قربان کیا اور سفری صعوبتیں برداشت کیں۔میرپور اور بھمبر وغیرہ کے وہ علاقے جہاں آج بھی آدمی بہت مشکل سے پہنچ سکتا ہے،یہ بزرگ آج سے کئی سال قبل پیدل اور گھوڑوں پر سوار ہو کر ان علاقوں تک پہنچتے رہے ۔انہوں نے لوگوں کو بنیادی دینی تعلیمات سےآگاہ کیا حتی کہ ان کےکلمہ طیبہ کو بھی درست کروایا۔
یہ سال کا اکثر حصہ تبلیغی دوروں پر رہتے تھے،جس جگہ جاتے وہاں لوگوں کو اکٹھا کر کے دینی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں۔ جس محلے یا گھر میں کوئی خلاف شرع کام ہوتا یہ وہاں بالکل نہیں ٹھہرتے تھے تاکہ ان لوگوں کو اپنے گناہ کا احساس ہو اور وہ توبہ کریں۔ ان کے اپنے تقویٰ و پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کبھی کسی بے وضو کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھایا اور نہ ہی کبھی کسی کے سامنے اپنا سر ننگا کیا۔ ان کے حلقۂ ارادت میں جو آدمی شریعت کی حدود کو پامال کر رہا ہوتا یہ اس کے متعلق مفتیان عظام سے فتویٰ لے کر اس پر تعزیر جاری کرواتے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔ وہ خود بھی عالم تھے اور علماء و طلباء کی قدر دانی کر کے انہیں دینی شعبے میں کام کرنے کا حوصلہ عطا کرتے تھے۔انہوں نے بے شمار مقامات پر مساجد قائم کروائیں اور ان کی آباد کاری کا انتظام کروایا۔
بعض مقامات پر انہوں نے سالانہ تربیتی محافل کا آغاز کروایا جن میں وقت کے جید علماء کرام کو خطابات کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ اس طرح ان کی کوششوں سے عوام میں دینی شعور اور جذبہ پیدا ہوتا چلا گیا۔
حضرت پیر محمد شفیع قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی خواہش تھی کہ ہمارے آستانے پر ایک عظیم الشان مسجد اور دارالعلوم قائم ہو تاکہ آنے والی نسلوں کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کا انتظام ہو سکے۔ اس مقصد کے لیےآپ نے وہاں موجود مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی قائم فرما دیا تھا جس میں حفظ و ناظرہ قرآن اور بنیادی تربیت کا آغاز ہو چکا تھا ۔بڑے دارالعلوم کا منصوبہ بھی زیرِغور تھا کہ 16 مئی 1974 میں آپ کا انتقال ہو گیا۔:
آپ کے وصال کے بعد حضرت علامہ حافظ پیر حیدر شاہ قادری صاحب رحمتہ اللہ علیہ آستانہ عالیہ کے سجادہ نشین منتخب ہوئے ۔ آپ نے اپنی دورِ سجادگی میں جو دینی خدمات سر انجام دیں۔وہ انتہائی قابل قدر ہیں ۔پھر آپ کی عمر کے آخری حصے میں آپ کے اکلوتے صاحبزادے پیر محمد احمد قاسمی قادری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حوالے آپ کے شانہ بشانہ کام کیا اور دونوں ہستیوں کے کام سے ڈھوڈا شریف کی تاریخ میں دعوت و تبلیغ اور خدمت خلق کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔ حضرت پیر حیدر شاہ صاحب نے تبلیغی دوروں کے نظام کو مزید وسعت دی اور ملک و بیرون ملک میں تبلیغی سفر کر کے مریدین و معتقدین کو منظم کیا۔ سالانہ پروگراموں میں اضافہ کیا۔ تنظیمی کام کے لئے عالمی انجمن غوثیہ قاسمیہ کی بنیاد رکھی ، مریدین کو اس کا ممبر بنایا، انجمن کے زیر اہتمام ایک عرصے تک سہ ماہی رسالہ “پیغام” بھی شائع ہوتا رہا جس میں اصلاحی مضامین اور آستانہ عالیہ کی سرگرمیاں شائع ہوتی تھی۔ آپ نے آستانہ عالیہ پر ایک عظیم الشان اور وسیع و عریض مسجد تعمیر کی اور اس کے ساتھ نسل نو کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک عظیم الشان ادارہ”جامعہ قادریہ قاسمیہ(برائے طلباء و طالبات)” قائم کیا اور مختلف شہروں اور دیہاتوں میں اس کی شاخیں قائم کی۔ان میں ناظرہ و حفظ قرآن ، تجوید و قرات اور بنیادی تربیت کا اہتمام کیا ۔دارالعلوم کے فارغ سینکڑوں حفاظ و علماء پوری دنیا میں خدمت دین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر علماء و حفاظ کا تعلق انہی خاندانوں سے ہے جن کا تذکرہ شروع میں گزر چکا ہے۔ آپ کی زندگی کی آخری چند سالوں میں آپ کےبیٹے حضرت صاحبزادہ پیر محمد احمدقادری صاحب بھی آپ کے دست و بازو بن چکے تھے،اپنی زندگی میں ہی آپ نے یہ مکمل نظام آپ کے سپرد فرما دیا ۔
دعوت و تبلیغ کا تیسرا مرحلہ:
حضرت صاحبزادہ پیر محمداحمد قاسمی قادری رحمتہ اللہ علیہ کے دور ِانتظام کو اس سلسلے کا انقلابی دور کہا جا سکتا ہے ۔آپ نے آستانہ عالیہ کے انتظامات سنبھالنے سے پہلے ہی ایک خاص نہج پر مریدین و معتقدین کی تربیت کا آغاز کر دیا تھا ۔ 2000ء جب آپ کی دستار اور سلسلہ عالیہ قادریہ اجازت و خلافت سے نوازا گیا تو آپ نے اس تربیتی کام کو مزید تیز کر دیا ،2009ء میں حضرت پیر حیدر شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے صاحب ِفراش ہونے کے بعد جب آستانہ کی مکمل ذمہ داریاں آپ کے سپرد ہوئیں تو آپ نے جس برق رفتاری سے محنت و لگن اور جاں سوزی سے کام کرتے ہوئے انہیں بخوبی نبھایا اور آستانہ عالیہ کے نظام کو عروج تک پہنچایا یہ آپ ہی کا خاصہ تھا۔ اس سلسلے میں آپ کی نمایاں کاوشیں درج ذیل ہیں:مریدین و معتقدین کی دینی و روحانی تعلیم و تربیت کے لئے آپ نے 1995ء سے اجتماعی سنت اعتکاف کا آغاز فرمایا، جس میں شرعی احکام کی درس و تدریس اور روحانی اصلاح کا باقاعدہ نظام بنایا گیا ۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اس وقت تک ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس سلسلے سے مستفید ہو چکے ہیں۔ اپنے متعلقین کی باطنی تربیت کے لیے آپ نے ماہانہ “شب بیداری” کا پروگرام شروع کیا جس میں ہر مہینے ہزاروں کی تعداد میں لوگ حاضری دیتے رہے۔ 12 ربیع الاول کو حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے ڈھوڈا شریف سےعظیم الشان جلوس کا آغاز فرمایا ،جو دربار شریف سے شروع ہو کر ٹانڈہ، کڑیانوالہ وغیرہ علاقوں سے ہوتا ہوا عصر کے وقت دربار شریف آ کر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ آپ نے جامعہ قادریہ قاسمیہ(طلبا و طالبات)کے شعبہ جات میں وسعت پیدا کرتے ہوئے شعبہ تجوید اور درس نظامی (عالم کورس ) کا اجراء کیا ،اس کے لیے جید علماء و قراء عظام کو بطور مدرس تعینات کیا گیا ۔ طالبات کے لیے درس نظامی کے ساتھ ساتھ مختلف تربیتی کورسز اور ترجمہ و تفسیر کورسز کا اجراء کیا ۔اہل علاقہ اور معتقدین کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے لئے سیدنا عبداللہ ہائی سکول اور بچیوں کے لیے سیدہ آمنہ گرلز ہائی سیکنڈری سکول کا آغاز فرمایا۔ان مدارس اور سکولز میں ہزاروں کی تعدا د میں طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ آپ نے دربار پر جدید سیکیورٹی سسٹم ، مہمان خانے اور لنگر خانے کی عظیم الشان بلڈنگ تعمیر کروائی۔دربار شریف کے زیرِ انتظام ہونے والے سالانہ پروگرام کو مزید تربیتی نظام میں ڈالنے کے لیے اقدامات کیے۔ آپ نے اپنے حلقہ مریدین و معتقدین میں ہونے والی محافل میلاد کا مروجہ نظام تبدیل کر کے انہیں خالصتاً تربیتی اور اصلاحی بنانے کی کامیاب کوشش فرمائی۔مختلف مقامات پر میلوں، ٹھیلوں اور شادی کی غیر شرعی رسومات کی جگہ آپ نے تربیتی محافل کا آغاز فرمایا۔ زمینداروں کو اپنی فصلوں سے عشر اور مالداروں کو زکوۃ،فطرانہ خیرات کی ادائیگی کی ترغیب دی ،جو بہت کامیاب ہوئی ۔اس وقت یہاں موجود جامعات اور فلاحی کاموں کے اخراجات انہیں ذرائع سے پورے ہو رہے ہیں۔
آپ نے اپنے حلقہ اثر میں موجود والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں میں سے کم از کم ایک بچے یا بچی کو دینی تعلیم کےلئے مدرسے میں داخل کروائیں۔قلحمد للہ!آپ کی اس ترغیب سے سینکڑوں لوگوں نے اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کروایا ۔اس طرح امت مسلمہ کی نسل نو کا ایک عظیم حصہ دینی تعلیمات سے روشناس ہوا۔
دین اسلام کے پیغام کو تحریری شکل میں عام کرنے کے لئے آستانہ عالیہ پر تصنیف و تالیف کا شعبہ قائم کیا جس کی طرف سے درج ذیل کتب ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو کر عوام الناس تک پہنچ چکی ہیں: انوار قاسم(تذکرہ بزرگان ڈھوڈا شریف) ،مجموعہ وظائف قادریہ (وظائف بزرگان ڈھوڈا شریف) ،اسلامی کے بنیادی ارکان ،اسلامی ضابطہ حیات بزبان تاجدار کائناتﷺ ،ختم غوثیہ شریف (بزرگان ڈھوڈا شریف کے طریقے کے مطابق)، میت کی تجہیز و تکفین کے مسائل، ہمارے سچے عقائد (عقائد اہل سنت کی تفصیل وضاحت)، خواتین کی طہارت کے مسائل ، ان تمام دینی و اصلاحی کاموں کی طرف توجہ دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے مریدین تنظیم سازی کی طرف خصوصی توجہ دی اور لاکھوں مریدین کو “القاسم ٹرسٹ” کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ایک عظیم علمی ، اصلاحی اور روحانی انقلاب کی بنیاد رکھی دی۔ اپنے وصال سے چند ماہ قبل آ پ نے القاسم ٹرسٹ کو رجسٹرڈ بھی کروا دیااور سالانہ عرس مبارک 2011ء کے موقع پر حاضرین کو القاسم ٹرسٹ کے قیام کی مبارک باد دیتے ہوئے اس کے ساتھ جانی و مالی تعاون کا حکم ارشاد ہوا۔
القاسم ٹرسٹ کے منصوبہ جات یہ ہیں: آستانہ عالیہ ڈھوڈا شریف کے تنظیمی ، علمی اور فلاحی کاموں کی انجام دہی۔
دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے مدارس ، سکولز اور کالجز کے وسیع نیٹ ورک کا قیام .جامعہ قادریہ قاسمیہ برائے طالبات کے لیے ہاسٹل اور اکیڈمک بلاک کا قیام ۔جامعہ مسجد قادریہ قاسمیہ ڈھوڈا شریف کی توسیع جس میں تقریبا 15 ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکیں۔جدید لائبریری اور کمپیوٹر لیب کا قیام۔اولڈ ہوم کا قیام ۔ مستحق بچیوں کے لیے جہیز فنڈ .بیوہ عورتوں کے مالی وظائف. یتیم بچوں اور بچیوں کی مکمل کفالت .بچیوں کے لیے سلائی ،کڑھائی اور دیگر پیشہ وارانہ امور کی تعلیم کے لیے انسٹیٹیوٹ کا قیام۔
حضرت صاحبزادہ پیر محمد احمد قادری قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ ابھی اپنے ان منصوبہ جات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے میدان عمل میں اترے ہی تھے کہ پیغامِ اَجل آ گیا اور آپ کا وصال ہو گیا۔جس اخلاص ، محنت اور جانثاری کے ساتھ آپ یہ کام کر رہے تھے اللہ پاک نے اس کی لاج رکھی اور القاسم ٹرسٹ کے ممبران اور آستانہ عالیہ کے مریدین و معتقدین کےدل ان تمام منصوبہ جات کی خدمت کے لیے اس طرف متوجہ فرما دیئے۔آپ اکلوتے بھائی تھے،والد صاحب بھی اس وقت صاحب ِفراش تھے اس کے تین ماہ بعد ان کا بھی وصال ہو گیا۔گویا کہ آپ کے بعد آستانہ عالیہ کا سجادہ نشین تو کوئی نہ بنا لیکن آپ کے تربیت یافتہ افراد نے پوری قوت کے ساتھ اس مشن کو جاری رکھا۔ باہمی اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رکھ کر القاسم ٹرسٹ کے ذمہ داران پر اعتماد کیا اور اپنے مال اور وقت کی قربانی پیش کر کے ان تمام امور کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ آج آپ کے وصال کو بارہ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی انتہائی نظم و ضبط کے ان دینی و فلاحی منصوبہ جات پر کام ہو رہا ہے۔ہزاروں لوگ یہاں کے تربیتی نظام سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔سینکڑوں طلباء و طالبات مدارس و سکولز میں زیر تعلیم ہیں، درس نظامی کی تین کلاسز فارغ التحصیل ہو کر میدان عمل میں موجود ہیں۔ایک طرف عوامی و دینی خدمت کے درجنوں سلسلے ہیں اور دوسری طرف ضرورت کی عمارتوں کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔عظیم الشان مسجد تکمیلی مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔آستانہ عالیہ سے فیض یافتہ علماء کے درجنوں مدارس الگ سے دینی خدمت میں مصروف ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافے ہوتے جا رہے ہیں۔یہ سب ان بزرگوں کی محنت ،اخلاص اور استقامت کی برکتیں ہیں اور نسل در نسل دینی محنت کی برکتیں ہیں ۔اللہ پاک ان میں مزید برکتیں اور وسعتیں عطا فرمائے،آمین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں