58

جدید ٹیکنالوجی اور روایتی پولیس حاجی مظہر اقبال گوندل

جدید ٹیکنالوجی اور روایتی پولیس
تحریر:حاجی مظہر اقبال گوندل
زمانہ انتہا کی جدت پر پہنچ چکا ہے۔پنجاب پولیس کو بھی ہر طرح کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر دیا گیا ہے۔لیکن ہماری پنجاب پولیس اپنی روایتی سستی اور کاہلی کو چھوڑنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہو رہی ہیں۔روایتی سستی اور کاہلی صرف صرف فیس لینے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔جیسے ہی مناسب فیس کی وصولی ہوتی ہے تو سائل کے کام کو پہیے لگ جاتے ہیں۔جو افراد فیس نہیں دیتے ہیں، وہ کام کے لیے دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں۔فیس دینے والے افراد آر پی او کی بجائے چاہے آئی جی کے پاس لاہور ہی کیوں نہ پہنچ جائیں، ان کا کام ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
جہاں کہیں کوئی واردات ہو جاتی ہے۔وہاں سے فنگر لیے جاتے ہیں۔یہ فنگر پیپر پر لے کر لاہور سینڈ کر دئیے جاتے ہیں۔جہاں سے نادرا آفس سے ویرفیکشن ہو کر تقریبا ایک ماہ میں رپورٹ واپس آتی ہے۔اس کے لیے بھی مدعی سے کرایہ و خرچہ وصول کیا جاتا ہے۔تاکہ کام جلدی ہو جائے۔جو فیس نہیں دیتے پھر ان کی فائل فائلوں میں ہی گم رہتی ہے۔
لیکن یہاں میں ایک بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔چند دن پہلے میں نے موبائل پر بنک اکاؤنٹ اوپن کیا۔وہاں میرے فنگر دستیاب تھے۔میں نے موبائل کے ذریعے ہی اپنی فنگر سکین کیں تو اسی وقت سسٹم نے نادرا سے ویرفیکشن حاصل کی اور ایک منٹ میں یہ عمل مکمل ہو گیا۔
اب جب ایک پرائیویٹ بنک کو اتنی سہولت دستیاب ہے۔کہ ایک منٹ میں نادرا سے فنگر ویری فائی ہو جاتے ہیں۔ تو ایک واردات کے فنگر اسی وقت موبائل کے زریعے کیوں نادرا سے ویری فائی کر کے کیس کو آسان نہیں بنایا جاتا ہے؟
دوسرا جب کسی کا موبائل چوری ہو جاتا ہے تو موبائل کا ایمی نمبر سسٹم میں ڈال دیا جاتا ہے۔لیکن چور حضرات موبائل کا ایمی نمبر تبدیل کر کے استعمال کرتے رہتے ہیں یا سیل کر دیتے ہیں۔پولیس کو تبدیل کیا ہوا ایمی نمبر موصول ہو جاتا ہے۔لیکن پولیس اپنی روایتی سستی اور کاہلی نہیں چھوڑتی اور نہ نئے ایمی نمبر والے بندے کو پکڑتی ہے۔نہ کوئی کارروائی عمل میں لاتی ہے۔یہاں مسئلہ پھر فیس کا آ جاتا ہے۔مدعی یہ سوچتا ہے جتنے پیسے اوپر لگانے ہیں، اتنے کا نیا موبائل خرید لیتے ہیں۔جس وجہ سے چور پکڑے نہیں جاتے ہیں اور مزید چوریاں کرتے رہتے ہیں۔
جب کہیں جنسی زیادتی کا کیس بنتا ہے تو سیمپل لے کر لاہور روانہ کر دئیے جاتے ہیں۔وہ صرف ایک ہی لیب ہے جہاں پورے پنجاب کی رپورٹس تیار ہوتی ہیں۔لیب کے ملازمین فیس لے کر سیمپل ہی تبدیل کر دیتے ہیں۔یہ لیب ہر ضلع میں کیوں نہیں بنائی جاتی ہے؟
ہر واردات میں ملزمان لازمی موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں۔جیو فنسنگ کے ذریعے ملزمان تک پہنچا جا سکتا ہے۔لیکن پولیس صرف بڑے کیسوں میں جیوفنسنگ کرتی ہے۔ڈکیتی یا چوری یا دیگر چھوٹی وارداتوں میں جیوفنسنگ نہیں کرتی ہے۔جس وجہ سے ملزمان نہیں پکڑے جاتے ہیں اور وہ مزید جرم کرتے جاتے ہیں۔
اب ہر جگہ کیمرے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔سی سی ٹی وی ویڈیوز بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔لیکن چھوٹی وارداتوں میں تفتیشی کیمروں پر فوکس ہی نہیں کرتا ہے۔کیمرے چیک ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔ایک جگہ کے کیمرے کا رزلٹ بہتر نہ ہو تو دوسری جگہ کے کیمرے سے رزلٹ حاصل کر کے ،کچھ محنت کرنے سے ملزمان تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔
لیکن سستی کاہلی اور عدم دلچسپی کی بنا پر جدید ٹیکنالوجی سے مدد حاصل نہیں کی جاتی ہے۔ جس کا فائدہ ملزمان اٹھاتے ہیں اور سرعام مزید جرم کرتے پھرتے ہیں۔
بس پولیس تقریبا ہر واردات میں آ کر روایتی کاغذ کالے کر کے چلی جاتی ہے اور اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے۔ تقریبا تمام مقدمات میں نشہ کرنے والے یا چھوٹے موٹے جرائم میں پھنسنے والے لاوارث اور غریب لوگوں کو پکڑ کر تھوڑی بہت ریکوری ڈال کر چالان کر کے مقدمہ کی نیست مار دی جاتی ہے۔اس طرح چھوٹا کریمنل جیل سے سرٹیفائیڈ اور بڑا کریمنل بن کر نکلتا ہے اور بڑے پیمانے پر کام شروع کر دیتا ہے۔کیونکہ جیل میں اس کا رابطہ گینگز کے ساتھ ہو جاتا ہے۔
اس طرح مدعی کو ریکوری نہیں ملتی،کیس ختم ہو جاتا ہے،اصل ملزمان پکڑے نہیں جاتے ہیں۔
ہمارا ہر نیا آنے والا آئی جی بہت خوبصورت باتیں سناتا رہتا ہے۔لیکن عملی طور پر ہماری پولیس نہ بدلی ہے اور نہ ہی کبھی بدل پائے گی۔
اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنائے اور ہمارے تمام محکموں کے لوگ تنخواہ پر ہی کام کرنے کی عادت اپنائیں۔پتہ نہیں ہم روز جنازے تو پڑھتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ انسان کچھ ساتھ لے کر جا رہا ہے یا خالی ہاتھ منوں مٹی کے نیچے جا رہا ہے۔ ہم مسلمان ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں ہم رحمان کو چھوڑ کر شیطان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ جبکہ شیطان کا راستہ جہنم اور رحمان کا راستہ جنت میں لے جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں