92

نواب شاھ میں ضلعی انتظامیہ پلاسٹک کے شاپر پر کاروائی نہ کر سکی بلال احمد قریشی

نواب شاھ میں ضلعی انتظامیہ پلاسٹک کے شاپر پر کاروائی نہ کر سکی
تحر یر بلال احمد قریشی

عدالتی اور سندھ حکومت کی واضح ہدایت کے باوجود ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد نہ کی جا سکی ،شہر کا اسی فیصد ڈرینج بھی اسی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے بڑے شاپنگ مال اپنے نام کے تیار کردہ شاپنگ بیگز پر پیسے وصول کرتی ہے جس پر شہریوں اور مال اسٹورز پر کھڑے سیلز مینوں سے تلخ کلامی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں جگہ جگہ پلاسٹک بیگز نظر آتے ہیں پانی کی بوتل سے لے کر ڈسپوزایبل کھانے کے پیکٹوں اور راستوں پر پلاسٹک یا اس کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔ پینے کے پانی اور غذائی اشیاء میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شہر بھر میں پلاسٹک کے استعمال کی روک تھام کے لئے بہت سے اقدامات کرنے کے بجائے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کچھ نہیں ہو رہا میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی عائد نہیں ہو سکی اور نہ ہی اس کے لئے مطلوبہ معیار کی کوشش کی گئیں ہیں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ پابندی کے احکامات کاغذوں تک محدود ہیں لیکن حکومتی اقدامات سے ہٹ کرعوام، جو تقریبا 70 سال سے اپنی روز مرّہ ضروریات سے لے کر باقی چیزوں میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں، اس فیصلے پر کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیں. دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرنے پر زور کیوں دیا جا رہا ہے.پلاسٹک ایک پولیمر ہے. سائنسی اصطلاح میں پولیمرایک جیسے ایٹموں کی زنجیر کو کہتے ہیں. یہ پولیمیرز زیادہ تر کاربن اور ہائیڈروجن کے ایٹموں سے بنے ہوتے ہیں جبکہ چند پولیمرز آکسیجن، نائٹروجن، سلفر، کلورین، فلورین، فاسفورس اور سلیکون سے بنتے ہیں.پولیمر میں موجود یہ ایٹم آپس میں بہت زیادہ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک 500 سے ایک ہزار سال تک ختم نہیں ہوتا. پلاسٹک کی اسی مضبوطی اور عرصہ دراز نہ ختم ہونے کی صلاحیت نے ہمیں اس کے استعمال کی طرف راغب کیا.ہماری روز مرہ کی زندگی میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر زیادہ ہوچکا ہے کہ اس کے استعمال کی بغیر زندگی مشکل محسوس ہوتی ہے. اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پلاسٹک کی بہت سی مصنوعات ملیں گی. کسی تفریحی مقام پر مسرور ہونے کے لئے جائیں تو پلاسٹک کی بوتلیں گلاس اور شاپروں کی موجودگی گندگی پھیلاتی نظر آئے گی. پلاسٹک نالیوں اور گٹروں میں پھس کر پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور وہی گندا پانی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آتا ہے جس سے طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں. بارشوں کی وجہ سے گلیوں اور سڑکوں پر نظر آنے والی گندگی اسی پلاسٹک کی مرہون منت تھی اور اس کی رہی سہی کسر قربانی کے جانوروں کی آلائشوں نے نکال دی.کھلونوں، کھانے کے برتنوں اور ڈبوں، فرنیچر اور برقی آلات میں پلاسٹک کے استعمال نے جہاں لکڑی کے استعمال کو کم کرکے جنگلات کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں زمین میں دبے پلاسٹک نے زیرزمین پانی کے ذخائر کو بری طرح متاثر کیا ہے. یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں پینے کے صاف پانی کی کمی ہوتی جارہی ہے.پلاسٹک کا استعمال صرف ماحول کے لئے ہی برا نہیں بلکہ تمام جانداروں کے لئے بھی وبال جان ہے. پلاسٹک کے شاپر میں یا ڈبے میں لی گی لذیذ غذا کسی زہر سے کم نہیں ہے. اسکول اور دفاتر جانے والے پلاسٹک کے ڈبے میں کھانا لے جاتے ہیں جو کہ مائکروویو اون میں گرم کرکے کھانے پر زہر میں تبدیل ہوجاتا ہے کیونکہ گرم ہونے پر پلاسٹک کے اجزا کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جوکے انسانی جسم میں داخل ہوکر کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں