125

عنوان: “علماء و امام صاحبان کا کاروبار کی طرف بڑھتا ہوا رجحان آخر کیوں؟سید اکبر

کالم نگار: سید اکبر
عنوان: “علماء و امام صاحبان کا کاروبار کی طرف بڑھتا ہوا رجحان آخر کیوں؟”
آج کل کافی اشتہارات نظروں سے گزر رہے کہ فلاں جگہ امام صاحب کی ضرورت ہے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اتنے اشتہارات کیوں؟ آیا مساجد زیادہ تعمیر ہو رہی ہیں یا ائمہ اکرام مساجد چھوڑ کر اپنے کاروبار اور بزنس میں مصروف ہو رہے ہیں یا ویسے ہی نئی مساجد میں امام صاحبان مل نہیں رہے۔
امام کیوں نہیں مل رہے؟
اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ عوام الناس کا دینی رجحان کا فقدان ہے سکول کالج یونیورسٹیاں کھچا کھچ بھرے پڑے ہیں ہر آدمی مادی ترقی مال و دولت کے ذریعے چاہتا ہے چونکہ دین داری میں عیش و عشرت اور مال و دولت کی ظاہری کمی نظر آتی وہی آٹھ دس ہزار مساجد میں تنخواہیں دیکھ کر لوگ اس طرف نہیں آتے ورنہ جتنا خوشحال اور قناعت پسند علماء ہوتے ان سے بڑھ کر کوئی بھی سکون کی زندگی نہیں گزار رہا ہوتا۔
گزر بسر ہے ہماری ____فقط قناعت پر
نصیب نے یہی دولت ہمیں عطا کی ہے
دوسری وجہ یہ ہے کہ جو دین دار ہیں یا دینی ذہن رکھتے ہیں انکی ترجیحات کا مرکز نعت خوانی اور خطابت بنتی جا رہی کیونکہ خطیب سر لگا کر بیان کرے ایک بیان کا پچاس سے ساٹھ ہزار نعت خواں چند منٹ نعت خوانی کرے ستر سے اسی ہزار اور امام صاحب محلے کے بچے بھی پڑھائے مسجد کی انتظامیہ کا کام بھی خود کرے نمازیں بھی پڑھائے جمعہ بھی پڑھائے ماہانہ تنخواہ آٹھ سے دس ہزار انصاف کی نظر سے اپنے گریبان میں جھانک کر فیصلہ کریں قصور وار کون؟ قصور وار صاحب حیثیت افراد اور میلاد کمیٹیاں ہیں جو ایک محفل پر ایک رات میں لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں اور اسی محلے میں سفید پوش امام مسجد دس ہزار پر گزارہ کر رہا ہوتا ہے اسی علاقے میں مدرسے کے بچوں کا کھانا پورا کرنے کے لیے قاری صاحب انہیں میلاد کمیٹیوں کے صدور کے پاس جائیں تو سال بعد دس ہزار دے کر احسان جتلائیں گے گویا کہ وہ زبان حال سے کہ رہا ہوتا ہے کہ
اتنا تو میرے حال پر احسان کیا کر
آنکھون سے میرا درد پہچان لیا کر۔
دوسری بات کہ امام صاحبان مسجد چھوڑ کر جا چکے ہوتے ہیں۔
اس چیز کے پس پردہ بصیرت کی نگاہ کریں تو بہت سارے حقائق سامنے آتے ہیں کہ امام صاحبان کے ساتھ انتظامیہ مسجد کا رویہ کہ اسے نوکر سمجھا ہوتا ہے کہ مسجد کی صفائی ستھرائی سے لے کر تمام کام امام مسجد کے ذمے ہیں۔ انتظامیہ کے صدور و ممبران صرف مہمان خصوصی ہوتے ہیں، مسجد میں کہ کوئی (Event) آیا تو مسجد میں آگئے اور نمازی یا امام صاحب پر رعب جھاڑ کر غائب ہو گئے پھر دھوپ نکلی تو اپنے آپ کو دھوپ لگوانے کے لیے مسجد کا رخ کر لیتے حالانکہ انتظامیہ مسجد امام مسجد کی خادم ہوتی ہے اور امام مسجد مصلی رسول ﷺ کا وارث ہوتا ہے۔
دوسری چیز اس میں جو چیز جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہو اسی کے لیے استعمال کی جائے تو فائدہ دیتی ہے ورنہ نقصان اٹھانا پڑھ جاتا ہے۔
ایک اعتراض کا جواب
اب ہو سکتا ہے کچھ لوگ یہ کہیں علماء تو تیار ہوئے تھے دینی رہنمائی کے لیے مساجد آباد کرنے کے لیے قال قال رسول اللّہ کی صدائیں بلند کرنے کے لیے مگر یہ تو علماء بزنس مین بن رہے ہیں کاروبار کر رہے ہیں جہاں سے پیسہ آتا اسی طرف رخ کر رہے کیا دین انہوں نے پیسے کمانے کے لیے پڑھا تھا۔
تو ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے بات سنیں کہ علماء علم پڑھتے ہیں دین پھلانے کے لیے مگر یہ بھی تو سوچیں کہ کہ آخر انہیں ان چیزوں کی طرف جانے پر مجبور کس نے کیا کیونکہ ہمیشہ جب بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو انکے حل کے لیے وجہ تلاش کی جاتی کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟
غور کریں تو بہت ساری وجوہات سامنے آتی ہیں مثلآ انتظامیہ کا برا رویہ، معاشی استحصال کہ خود کا گزارا تو لاکھوں میں نہیں ہوتا مگر امام مسجد کو دس، پندرہ ہزار دینا بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے مسجد کے نقش و نگار اور خوبصورتی پر سب کی توجہ ہو گی مگر مسجد آباد کرنے والے امام صاحب کی تنخواہ کیا حالات حاضرہ کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی موجودہ دور میں مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہر طبقے نے رونا رویا کہ گزارا نہیں ہوتا تنخواہیں بڑھا دی جائیں کیا لاکھوں کروڑوں صدقہ و خیرات کرنے والوں نے سوچا! کہ امام مسجد بھی دنیا میں رہتے ان کے بچے بھی سکولوں میں پڑھتے ہیں انکے گھر کے بھی اخراجات ہیں، انکی بھی رشتے داریاں ہیں شادی بیاہ اور خوشی غمی کے معاملات کا تعلق انکے ساتھ بھی وابستہ ہیں، اگر یہ اپنے عزت اور وقار کے پیش نظر مطالبہ نہیں کرتے تو ہمیں خود ہوش کے ناخن لینے چاہیے ورنہ صدقہ و خیرات کرنے اور حاجی و نمازی ہونے کے باوجود اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑھے گا۔
خدارا اس بات کو سمجھیں
اس مسلمہ امر کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ آج کے حالات کل سے مختلف ہیں اور نہایت تیزی کے ساتھ تغیر پذیر ہیں۔ فرد کی حاجت و ضرورت کا پیمانہ بدل چکا ہے آج کی دوڑتی بھاگتی پر پیچ اور پر تکلف زندگی کل کے مقابلے میں مختلف چیلنجوں اور آفات و حوادث سے گھری ہوئی ہے، خاندان کی دیکھ بھال، بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور حفظان صحت کے نقطہ نظر سے مناسب ماحول کی فراہمی، صحت بخش غذا اور علاج و معالجہ وغیرہ کے لیے معقول تنخواہ اور ذریعہ آمدنی کی ضرورت ہے۔
جس کے جی میں آئے پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں