نادرا آفس میں نیا تعنات ہونے والا انچارج کم ماڈل زیادہ لگتا ہے مردوں سے تلخ کلامی خواتین شریں باتیں
موصوف دفتر میں کم باہر پوش فیملی اور خواتین کو گھیرتے ہیں ان سے ان کا کار خاص ڈیل کرتا ہے پھر کام ہوتا ہے
انچارج کم ماڈل زیادہ نظر آنے والا معظم علی نہ عدالت کے آرڈر اور نا ہی میڈیکل کو مانتا ہے انتہائی بدتعمیز شخص کے خلاف لوگوں کی شکایت پر رٹ نیوز ٹیم کی خفیہ رپورٹنگ کے مطابق تمام الزامات سچ ثابت ہوئے
پاکستان میں کام کرنے والوں کی کمی نہیں ہر محکمے میں نالاٸق اور نکمے لوگ موجود ہیں چھوٹی چھوٹی معمولی غلطیاں جو جان بوجھ کر ۔۔۔۔عملے سے کرواتے ہیں ان غلطیوں کی وجہ سے کتنے دن مہینے سال زلیل ہوتے ہیں خاص طور پر وہ فیملیاں جن کے لوگ دیار غیر میں بستے ہیں جب وہ پاکستان آتے ہیں ان کے بیوی بچوں کے پیپر ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی وجہ سے چھٹیاں گزار کر چلے جاتے ہیں لیکن ایک غلطی ان کا کتنا نقصان کرتی ہے یہ تو وہی جانتے ہیں جو بھگت رہے ہیں معظم علی جیسے افسران کے ایجنٹ باہر کھڑے رہتے ہیں جو خواتین اور سادہ لوح لوگوں کو دیکھ کر ان کے اندر بلاتے ہیں ان کو پروٹوکول دے کر ان کے کام میں غلطیاں نکالتے ہیں اور پھر ان سے ڈیمانڈ کرکے ان کے کام کرتے ہیں اگر کوئی ان کی ڈیمانڈ پوری نہ کرے تو وہ بیچارہ مہینوں بلکہ سالوں چکر لگاتا رہتا ہے لیکن یہ شناختی کارڈ کے اصول کے راستے میں جتنی ڈال سکتے ہیں ڈالتے ہیں یہ ایک ایسا مافیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی بات کرے کوئی خبر لگائی ہے یا ان کی نشاندہی کرے تو ان کے پالتو اور اور بے نام و نشان آئی ڈی سے طوفان لے آتے ہیں ہیں اور آن لائن کم ہم اور کرپٹ افسروں کی کی تعریفیں یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہماری ان لوگوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ میں ہمت نہیں اس مافیا سے ٹکرانے کی ان کے خلاف بات کرنے کی تو جو ان کے خلاف رپورٹنگ کرتے ہیں یا دلیری دکھاتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ ان کے خلاف ہیں سوشل میڈیا پر پر تنقید کے نشتر گھر چلائیں ایسے کرپٹ افسران کو عوام پر مسلط کرنا ظلم ہے زیادتی ہے ان لوگوں کی جو ان کی سفارش کرتے ہیں رشوت لے کر بھرتی کروا دیتے ہیں
