164

آخری عشرے کا ایک اہم عمل صدقہ ٔ فطر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبیﷺ نے صدقۂ فطر فرض فرمایا

صدقہ فطر
تحریر :حاجی جنید
آخری عشرے کا ایک اہم عمل صدقہ ٔ فطر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبیﷺ نے صدقۂ فطر فرض فرمایا۔
یہ صدقہ روزے دار کے لیے لغویات اور بے حیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا باعث اور مسکینوں کے لیے خوراک کاسامان فراہم کرتاہے۔ جو شخص اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کرتا ہے تو یہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جو شخص نماز کے بعد اسے ادا کرتاہے تو وہ عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔‘‘ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
اس حدیث میں صدقۂ فطر کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حکمت یہ ہے کہ روزے دار سے بہت سی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں ۔ زبان و نگاہ سے بہت سی خطائیں صادر ہونے کا امکان رہتاہے،اس لیے روزوں کے اختتام پر صدقے کا حکم دیا گیاتاکہ اس صدقے کے ذریعے وہ کوتاہیاں اور خطائیں بخش دی جائیں جو روزے دار سے قصداً یا سہواً سرزد ہوگئی ہیں اورروزے دار کو پاکیزگی حاصل ہوجاتی ہے۔یہ اللہ کا کتنا بڑا نعام ہے کہ اس نے چندسکوں کے عوض ہمارے گناہ معاف کرنے کا وعدہ کیا۔
دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ عید کے دن تمام مسلم معاشرے کو خوشی و مسرت میں شریک ہونا چاہیے اور غرباء و مساکین کو مانگے بغیر اتنی رقم ضرور مل جانی چاہیے کہ وہ عید کی خوشی دوسروں کی طرح مناسکیں ۔دوسروں کو خوش کرنا بہت بڑی نیکی ہے ۔اس لیے حکم دیاگیا کہ صدقۂ فطر کی رقم نماز ِ عید سے پہلے پہلے غریب افراد تک ضرور پہنچا دی جائے۔

صدقۂ فطر ہر آزاد وغلام، مرد وعورت، ہر چھوٹے بڑے پر واجب ہے حتیٰ کہ عید کا چاند دیکھنے کے بعد اور نمازِ عید سے پہلے بھی جو بچہ پیداہوا تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔صدقۂ فطر سر پرست پر واجب ہوتاہے اور اس کو اپنے زیر سرپرستی (جن کا وہ کفیل ہو) ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کا صدقۂ فطر شوہر کے ذمہ ہے۔ بچوں کا صدقۂ فطر باپ کے ذمہ ہے۔ اگر کوئی نوکر یا خدمت گار ہو تو اس کی طرف سے صدقۂ فطر مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں