61

آرمی ایکٹ بل،دستخط صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کیے؟ثبوت مل گئے،سیکرٹری منظر عام پر،ایوان صدر میں سازشی کون ہے؟

آرمی ایکٹ بل،دستخط صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کیے؟ثبوت مل گئے،سیکرٹری منظر عام پر،ایوان صدر میں سازشی کون ہے؟پروگرام ’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ پاکستان کے ایوان صدر کا ماحوال اس وقت سخت گرم ہے۔بظاہر صدر مملکت اور کچھ پس پردہ کرداروں کے درمیان محاز آرائی نقطہ عروج پر ہے۔اور یہ کشمکش متنازعہ دو بلز کی منظوری کے بعد سے پیدا ہوئی ہے ۔ان بلز کو لیکر بھی ابہام جون کا تو برقرار ہے۔قانونی ماہرین بھی اس بلز کے قانون بننے کے حوالے سے متضاد رائے رکھتے ہیں ۔کچھ کے مطابق یہ بلز قانون بن چکے ہیں اور بعض کے نزدیک صدر مملکت کے ٹویٹ کے بعد ان ایکٹس کی کوئی حثیت نہیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صدر مملکت اپنے آفس کےعملے کی کوتاہی پر ایکشن لیتے ہوئے اپنے سیکرٹری وقار احمد کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرتے ہیں اور گریڈ 22 کی افسر کی خدمات لینے کی خواہش کا اظہار کر دیا لیکن اب معلوم ہوا کہ جس افسر کو لگانے کی سفارش کی گئی انہوں نے ایوان صدر میں خدمات سر انجام دینے سے معذرت کر لی ہے۔سابقہ سیکرٹری وقار احمد جن کو صدر مملکت نے سبکدوش کیا ہے وہ بھی اپنا چارج چھوڑنے کو تیار نہیں ہے بلکہ انہوں نے صدر مملکت کو ایک انتہائی سیکرٹ خط لکھا ہے جس کے اوپر درج ہے کہ اونلی دی آئیز آف پرائم منسٹر۔ لیکن یہ خط صدر پاکستان کو موصول ہوا یا نہیں لیکن میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت ضرور بن گیا۔یہاں سوال یہ ہےکہ کیسے صدر مملکت کو لکھا جانے والے خط جو صرف ان کے پڑھنے کے لیے تھا میڈیا کو لیک ہو گیا۔
اس خط میں وقار احمدکا کہنا ہےکہ صدر مملکت نے میری خدمات واپس کردیں لیکن میں حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ایسا تاثر دیا گیا کہ سیکرٹری مذکورہ بلوں سے متعلق کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار ہے۔ وقار احمدکے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2 اگست کو ایوان صدر میں وصول ہوا، صدر مملکت کو یہ بل تین اگست کو بھیج دیا گیا، حقائق واضح ہیں نہ میں نے بلز کے معاملے میں تاخیر کی اور نہ بے قاعدگی اور نہ صرف نظر، حقیقت یہ ہےکہ فائلز ابھی بھی صدارتی چیمبر میں موجود ہیں۔ وقار احمدکا کہنا ہےکہ صدر کا سیکرٹری کی خدمات واپس کرنےکا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں، صدر مملکت نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی نہ منظوری دی نہ تحریری طور پر واپس پارلیمنٹ بھیجنےکوکہا، مذکورہ فائل 21 اگست تک سیکرٹری کے آفس میں واپس نہیں بھجوائی گئی۔ وقار احمد نے صدر مملکت سے درخواست کی ہےکہ وہ ایف آئی اے یا کسی بھی ایجنسی سے تحقیقات کرالیں، انکوائری کروا کر اگرکسی نے کوتاہی کی ہے تو ذمہ داری ڈالی جائے، اگر سپریم کورٹ یا کسی عدالت نے بلایا تو میں ریکارڈ کے ساتھ جا کر حقائق بتاؤں گا، میں ریکارڈ پیش کرکے اپنی بےگناہی ثابت کروں گا۔ وقار احمد کا کہنا ہےکہ میں نے ایوان صدرکے دفترکے وقار کو کم نہیں کیا، آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 8 اگست کی شام آفس بند ہونے کے بعد ایوان صدر کو وصول ہوا، آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 9 اگست کو صدر مملکت کو بھجوایا گیا، صدر مملکت ان دونوں بلز پر حقائق اچھی طرح جانتے ہیں۔ صدر مملکت کے سبکدوش سیکرٹری کے مطابق آرٹیکل 75 کے تناظر میں صدر کو بل کی 10دن کے اندر منظوری دینےکا اختیار ہوتا ہے، آرٹیکل 75 کے تحت صدر کو بل 10دن کے اندر واپس پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کے لیے بھجوانےکا اختیار ہے۔
واضح تھا وزیراعظم نے ایڈوائس8 اگست کو بھیجی اور 17اگست کو دس دن کی مدت پوری کی جائے گی، صدر مملکت نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کی منظوری دی نہ ہی واپس پارلیمنٹ کو بھجوایا، آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 21 اگست تک صدر مملکت کے آفس میں موجود ہے۔صدرمملکت کی سیکرٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ کو واپس کرنےکا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے، میں حلف پر بیان دینےکو تیار ہوں، صدر مملکت سے درخواست ہےکہ میری خدمات واپس کرنےکا خط واپس لیں، میں نے ایوان صدرکے دفتر کے وقار کو کم نہیں کیا۔سیکرٹری وقار احمد کے خط اور اس کے خط کے میڈیا کو لیک ہونے سے ایسا تاثر جا رہا ہے کہ ایوان صدر میں معاملات ٹھیک نہیں ۔صدر مملکت اپنے ہی دفتر میں بے بس اور محصور ہوچکے ہیں ۔آئین پاکستان نےصدر مملکت کو بہت مضبوط پاورز دی ہے۔یہ عہدہ تینون مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کا ہے۔ان کی اجازت چاہے وہ رسمی ہی کیوں نہ ہون لیکن اس کے بغیر کوئی بھی بل قانون نہیں بن سکتا ۔اس کے باوجود آج صدر مملکت عارف علوی اس قدر آئسولیشن میں جا چکے ہیں کہ انکا اسٹاف بھی ان کے کہنے میں نہیں ،جسے وہ سبکدوش کرنا چاہتے ہیں وہ عہدہ چھوڑنے کا تیار نہیں اور جسے وہ اپوائنٹ کرنا چاہتے ہیں وہ خدمات دینے سے انکاری ہے۔
صدر مملک اس آئسولیشن تک کب اور کیسے پہنچے یہ بھی بہت بڑا سوال ہے۔اس کے پیچھے صدر عارف علوی کی اپنی کاوشیں ہین کیونکہ انہوں نے پانچ برس صدر کی حثیت سے کم اور ایک پارٹی کے نمائندہ ہونے کو زیادہ ترجیع دی ۔صدر ممملکت کی ٹویٹ کے بعد سے حالات کشیدہ ہے اور صدر پر بھرپور تنقید کی جا رہی ہے۔گزشتہ روز لندن م کے دورے پر موجود سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی صدر عارف علوی کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہ کہ در پاکستان نے جو بیان دیا ہے اس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ صدر نے اتنے دن انتظار کیوں کیا ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے، یہ معاملہ اتنا آسان نہیں، صدر مملکت عارف علوی کو جواب دینا پڑےگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں