318

رمضان کی فضیلت رَمضانُ المبارَک اسلامی تقویم کا نواں مہینہ ہے۔

تحریر حاجی جنید
رمضان کی فضیلت
رَمضانُ المبارَک اسلامی تقویم کا نواں مہینہ ہے۔مسلمانوں کے لیے اس پورے مہینے میں روزے رکھنے فرض ہیں۔شب قدر،بھی اسی مہینے میں ہے۔ قرآن کے مطابق ”اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔” اس مہینے کی اہم ترین عبادت میں روزہ رکھنا، قرآن مجید کی تلاوت، آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب بیداری کرنا، دعا و استغفار، مؤمنین کو افطاری دینا اور فقیروں اور حاجت مند کی مدد کرنا شامل ہے۔
رمضان کے مہینے میں مسلم ممالک اور معاشرہ میں بہت سے دینی شعائر کا اہتمام کیا جاتا ہے، مثلاً: نماز تراویح اور آخری عشرہ میں اعتکاف وغیرہ۔ اسی طرح بہت سے اعمال و رسوم بھی ادا کیے جاتے ہیں، جیسے افطار کے دسترخوان کا اہتمام اور دوسروں کو افطار کی دعوت وغیرہ۔ روزہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔ جسے عربی میں’ صوم’ کہتے ہیں۔رسول اکرمۖ نے اپنی زندگی کے نو رمضان المبارک کے روزے رکھے۔
رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔”(سورة القدر)
رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم ۖ کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمۖنے فرمایا:”جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔”(صحیح بخاری)
یعنی ایسا ماہ مبارک جس میں شیطان کے بہکاوؤں سے بچنے کی بھی آسانی کردی گئی ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم ۖ کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمۖ نے فرمایا:
”جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔” بخاری
رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمۖ نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے ”شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔” (ترمذی و ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس نے ہمیں رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینہ سے نوازا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کی آمد کے موقع پر اللہ کے رسولۖدعائیں مانگتے تھے۔
آپ ۖ ماہ رمضان کا پوری تیاری کے ساتھ استقبال فرماتے۔ رمضان المبارک میں آپۖ کے شب و روز کے معمولات بڑھ جاتے۔ تہجد کا اہتمام خود بھی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی تاکید فرماتے. مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ ابرِ رحمت کی مانند ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے دل منور ہو جاتے ہیں اور ان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲۖ نے قسم کھا کر فرمایا:
”تم پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے کہ مسلمانوں پر اِس سے بہترمہینہ اور منافقین پر اس سے بُرا مہینہ کبھی نہیں آیا۔ پھر دوبارہ رسول اﷲۖ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا:اﷲ تعالیٰ اس مہینے کاثواب اور اس کی نفلی عبادت اس کی آمد سے پہلے لکھ دیتا ہے اور اس کی بدبختی اور گناہ بھی اس کے آنے سے پہلے لکھ دیتا ہے، کیونکہ مومن اس میں انفاق کے ذریعے قوت حاصل کر کے عبادت کرنے کی تیاری کرتا ہے اور منافق مومنوں کی غفلتوں اور ان کے عیب تلاش کرنے کی تیاری کرتا ہے۔” (ابن خزیمہ رقم 1884)
کیسا شاندار مہینہ رب کریم نے امت مسلمہ کو عطا فرمایا کہ جس میں عبادات کا ثواب 70 سے 700 گنا بڑھا دیا گیا، مغفرت اور بخشش نقد عطا کی جارہی ہے، روزے دار کی منہ کی بدبو کو مشک سے تعبیر کیا جارہا ہے،جنت کا ایک دروازہ ”باب الریان” روزے داروں کے داخلے کے لئے مخصوص کردیا گیا۔کیا شان ہے!اس مبارک ماہ کی۔
ایک روایت میں حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ ۖ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اگر لوگوں کو رمضان کی فیوض وبرکات کا علم ہوتا تو وہ تمنا کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔”(ابن خزیمہ)
ماہ مبارک کو حدیث پاک میں ”سید الشہور شہر الرمضان”(تمام مہینوں کا سردار) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے تمام دن تمام لمحے سب سے بہتر،اور ایک ایک سیکنڈ بہت قیمتی ہے۔
چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے شعبان کی آخری تاریخ میں فرمایا۔اے لوگو! سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو ثواب کی چیز ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو اورجو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے نجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپۖنے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی شخص ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیگا۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔” (ابن خزیمہ)
اس طویل حدیث میںنبی کریمۖنے اس ماہ کی ایک ایک بات اور فضیلت کھول کر بتادی ہے۔
اس ماہ کریم میں آسمانی کتابوں کا نزول بھی ہوا۔
اس سلسلے میں حضرت واسلہ بن اسقع روایت کرتے ہیں کہ حضورۖ نے فرمایا؛
” ابراہیمی صحیفہ رمضان المبارک کی پہلی رات اترا اور تورات 6 رمضان المبارک میں انجیل 13 رمضان المبارک میں اور قرآن کریم 24 رمضان المبارک کو، نازل ہوا۔”
رمضان المبارک دراصل قرآن کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں رسول اللہۖ کا ایک اہم معمول قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنابھی تھا، رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خصوصی نسبت ہے کیوں کہ یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے جس طرح دوسری نیکیوں کا اجر اس ماہ میں ستر گنا ہوجاتا ہے، اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کا بھی اجر بڑھ جاتا ہے، اگر عام دنوں میں قرآن کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں تو رمضان میں ستر گنا اضافہ کے ساتھ ایک حرف کی تلاوت پر سات سو نیکیاں نامہ اعمال میں درج ہوں گی۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے کاموں میں لوگوں سے بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے خاص طور سے رمضان المبارک کے مہینہ میں خیر کے کاموں میں بہت اضافہ ہوجاتا، رمضان میں جبرئیل امین کی بھی آمد رسول اللہۖ کی خدمت میں زیادہ ہوجایاکرتی تھی اور جبرئیل جب آتے تو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا ورد فرماتے۔ (بخاری)
اس ماہ کریم کی ایک اور فضیلت ‘شب قدر’ ہے۔ یہ وہ رات ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کی پوری سورة نازل فرمائی۔ اس رات کو افضل ترین کہا گیا۔یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ وہ مؤمنوں سے مصافحہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوتی ہے۔یہ رات سابقہ امتوں کے عبادت گزار بندوں سے سبقت لے جانے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔
رسول اللہۖ ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے، لیکن جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ذکر واذکار اور تسبیحات میں بہت اضافہ ہوجاتا، کثرت ذکر کے ساتھ اس ماہ میں دعائیں بھی خوب اہتمام سے کرتے۔
اسوہ رسول کریمۖپر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی اس ماہ کی فضیلتوں اور برکتوں سے اپنے دامن کو بھر لینا چاہیے،اس انوارات اورفیضانات سے اپنے قلب کو منور کرلینا چاہیے تاکہ روز محشر ہمیں بھی صائمین، ذاکرین اور خاشعین کی صفوں میں جگہ مل سکے اور نبی آخر الزماں ۖ کی شفاعت نصیب ہوسکے۔آمین یارب العالمین.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں