213

دنیا کا وہ ملک جہاں غیرشادی شدہ سرکاری افسر جیل میں قیدی خواتین کے ساتھ اپنی جسمانی بھوک مٹا سکتا ہے

ایک نئی دستاویزی فلم شام کے سرکاری قید خانوں میں ہونے والے جنسی تشدد پر روشنی ڈالتی ہے۔ بظاہر ایسا ایک منظم طریقے کے تحت کیا جاتا ہے اور مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانا بھی مشکل ہے۔ڈنڈوں سے مارپیٹ، بجلی کے جھٹکے اور مختلف اقسام کے سخت آلات کا استعمال میں قید بھی روزمرہ کا معمول ہیں۔یہ
دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ایسا انتہائی منظم طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ ’ایس اے جے سی‘ کی رپورٹ اور دستاویزی فلم کے مصنفین میں سے ایک حنا گریگ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ متاثرین کے بیانات اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی اس رپورٹ سے ملتے جلتے ہیں، جس میں چار سو چون متاثرین کے انٹرویوز کیے گئے تھے۔حنا گریگ کا مزید کہنا تھا، ’’سب سے خوفناک امر یہ ہے کہ یہ تشدد منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ جب ایسی کوئی کہانی آپ پہلی مرتبہ پڑھتے ہیں تو خوفزدہ ہو جاتے ہیں لیکن جب آپ متعدد کہانیاں پڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک جیسی صورتحال بار بار پیدا ہوتی ہے۔ قیدیوں کو ایک سسٹم کے تحت تشدد کرتے ہوئے مجبور کیا جاتا ہے۔‘‘حنا گریگ کے مطابق جن قیدیوں کو رہائی ملتی ہے، وہ آزاد ہونے کے باوجود کئی کئی سال اس تشدد سے متاثر رہتے ہیں۔ اس غیر سرکاری نتظیم نے امید کا اظہار کیا ہے کہ متاثرین کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے اور ملزمان کی شناخت کرتے ہوئے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ابھی تک ایسا کوئی بھی مطالبہ حقیقت کا رنگ اختیار نہیں کر سکا کیوں کہ شام بین الاقوامی فوجداری عدالت کا رکن ہی نہیں ہے۔سن دو ہزار سترہ میں جرمنی میں موجود شامی مہاجرین نے اسد حکومت کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں شام کے متعدد اعلیٰ عہدیدار بھی نامزد تھے۔ اسی بنیاد پر سن دو ہزار اٹھارہ میں جرمنی میں شامی ایئر فورس انٹیلی جنس چیف جمیل حسن کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔ ان پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں