100

پولیس کی نااہلی اور بے بسی کی ایک داستان

پولیس کی نااہلی اور بے بسی کی ایک داستان
ضلع منڈی بہاؤلدین کی دیگر تحصیلوں کی طرح تحصیل پھالیہ بھی آج کل چوروں ڈاکوؤں کے نرغہ میں ہے ۔پر تھانے میں “دبنگ ” ایس ایچ اوز بھی موجود ہیں اور وارداتیں بھی دبنگ انداز میں جاری ہیں۔پولیس کی غفلت اور رشوت خوری کے باعث چھوٹی چھوٹی رنجشیں قتل کی وارداتوں میں بدل جاتی ہیں اور آئے روز قیمتی جانیں انا پرستی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔تھانہ پھالیہ کے علاقہ میں روزانہ کی بنیاد پر موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں اور ایس ایچ او پھالیہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے مقدمہ ہی درج نہیں کرتا اور سائلین کو لفظی تسلی دے کر ٹرخا دیا جاتاہے۔صرف ایک مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ڈی پی او منڈی بہاؤ الدین ساجد کھوکھر سمیت پولیس کتنی بے بس ہے کہ چاہتے ہوے بھی مظلوم کی مدد سے قاصر ہے۔۔۔۔
*15-09-2021 کو معروف نعت خواں ذیشان اظہر بھٹی کی ملکیتی گاڑی LEC5717 اسداللہ اور اس کے پانچ ساتھی رینٹ پر لے کر گئے اور ڈنگہ میں گاڑی مذکورہ کو غائب کر دیا جس کا مقدمہ نمبر 693/21 تھانہ پھالیہ میں درج ہوا اور گاڑی کا سراغ لگنے کے بعد پھالیہ پولیس ڈنگہ سے گاڑی برآمد کر کے ایس ایچ او ڈنگہ کی زمہ داری پر گاڑی پھالیہ لانے کی بجائے وہیں چھوڑ دیتی ہے اور بعد ازاں گاڑی دوبارہ کسی نامعلوم مقام پر لیجا کر اس کا ٹریکر اتار دیا جاتا ہے اور ایس ایچ او ڈنگہ پھالیہ پولیس کی مدد سے قانون کی مدد کرنے کی بجائے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔بعد ازاں مدعی فریق گاڑی حاصل کرنے کے لیے تمام روایتی طریقے اختیار کرتا ہے لیکن پولیس بھی روایتی بے حسی کا مسلسل شکار رہتی ہے۔6 اکتوبر 2021 کو ڈی پی او منڈی بہاؤ الدین ساجد کھوکھر ڈی ایس پی سرکل آفس پھالیہ میں کھلی کچہری کا نعقاد کرتے ہیں اور مدعی مقدمہ ذیشان اظہر بھٹی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی بیان کرتے ہیں جس پر ڈی پی او صاحب نہ صرف افسوس کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ڈی ایس پی پھالیہ اسد اسحاق کو حکم دیتے ہیں کہ ہو قیمت پر گاڑی اس کے مالک کو واپس دلائی جائے۔ڈی پی او منڈی بہاؤ الدین کی ہدایت کے مطابق مدعی مقدمہ ،ناصر الطاف سہروردی اور راقم کے ہمراہ ڈی ایس پی پھالیہ کو ملتے ہیں تو وہ یہ کہ کر بات کو ختم کر دیتے ہیں کہ ایس ایچ او ڈنگہ کہتا ہے کہ جن کے پا س گاڑی ہے وہ مجھ سے طاقتور ہیں اور وہ گاڑی واپس لے کر نہیں دے سکتا ۔مدعی مقدمہ ناصر الطاف سہروردی اور راقم کے ہمراہ ایک بار پھر ڈی پی او منڈی بہاؤالدین کے آفس میں ان سے ملتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ ڈی ایس پی پھالیہ گاڑی واپس دلانے سے قاصر ہیں جس پر وہ اپنے PSO کی موجودگی میں پولیس کے اس رویہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ جیسے بھی ہو گاڑی برآمد کی جائے لیکن ان کے یہ احکامات بھی کھلی کچہری کے احکامات کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے جاتے ہیں اور تاحال اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہ ہے۔ڈی پی او کسی بھی ضلع میں پولیس کا سب سے بڑا آفیسر ہوتا ہے لیکن اس کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ عوامی فورمز پر بھی دیے گئے اس کے احکامات کی کوئی حیثیت نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ آرپی او یا آئی جی پنجاب بھی اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرسکیں کہ انہوں نے بھی بہرحال ڈی پی او کو ہی حکم دینا ہے اور ڈی پی او کتنا بااختیار ہے اس کا آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا۔
تحریر۔۔۔۔ظفر عباس انجم۔۔۔۔صدر پھالیہ پریس کلب پھالیہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں