150

جہلم جانے والے لوگ بھی ویکسینیشن کے بغیر مت جائیں

لاکھوں کروڑوں درود آپ پر اور آپ کی آل پر
عیسیٰ حسن چوہدری کی فرمائش پر جہلم کے ایف سی پر پہنچے تو پتہ چلا یہ کوئی پاکستانی فرنچائز نہیں ہے جہاں پر جو دل چاہا کر لیا میں چیئرمین پریس کلب ہوں دو اخبارات کا چیف ایڈیٹر ہوں میرا میڈیا ہاؤس ہے کہہ کر وی آئی پی پروٹوکول لے لیا اور جب کبھی صحافت کام نہ آئی تو میڈم صاحبہ نے اپنے وکالت کے بل بوتے پر اپنے مقاصد حاصل کر لیے لیکن پہلی دفعہ کسی جگہ سے ناکام لوٹنا پڑا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ فرنچائز کے ایف سی پوری دنیا میں موجود ہے میں نے دو تین ملکوں میں اس کے ایف سی کی فرنچائز دیکھی ہیں نہ کھانے پر کمپرومائز اور نہ ہی رول اینڈ ریگولیشن پر کمپرومائز میں پہلی دفعہ دبئی اور شارجہ کے درمیان پل کے ساتھ شارجہ انٹر ہوتے ہوئے وہاں کے ایف سی پرگیا تو پاکستان میں ہم کوئی بھی ٹائم کی پابندی نہیں کرتےنہ ہی لین میں لگتے ہیں وہاں پر میں نے لائن کراس کرکے آگے جانے کی کوشش کی تو ان کے گارڈ نے مجھے روک لیا اور میں نے اپنا پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا لائن میں داخل ہونے کی کوشش کی تو بات آگے بڑھ گئی شرطے یعنی پولیس آگئی میں اپنی غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں تھا اور وہ اپنے ڈسپلن کے پابند تھے بات نیا بے یعنی کوٹ تک چلی گئی وکیل نے اپنی غلطی مان کر ان سے صلح کر لو ورنہ میں آپ کو کینسل کر دوں گا اور جیل بھیج دوں گا
میں نے کہا کہ میں دو کمپنیوں کا مالک ہو ں اور میرے پاس ستر بندے کام کرتے ہیں اور بزنس مین کس ویزہ ہے لیبر کا نہیں تو اس سرکاری وکیل نے کہا کہ اگر آپ کا سارا شارجہ بھی ہوتا اور سارا دبئی آپ کے نام ہوتا تو میں پھر بھی آپ کو یہی سزا دیتا تو میں نے موقع کی مناسبت سے معذرت کی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم دیار غیر میں غلطی تسلیم کر لیتے ہیں اور ڈسپلن کو بھی فالو کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں ہم کسی کو نہیں مانتے کسی قانون پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی یافتہ ملکوں کی لسٹ میں سب سے پیچھے ہے اور ہمارے اردگرد ایسے حالات ہیں کہ ہم گھر سے باہر نکلتے ہوئے سوچتے ہیں ڈرتے ہیں گھبراتے ہیں میں اکثر لکھتے ہوئے ادھر ادھر بھٹک جاتا ہوں اس لئے معذرت خواہ ہوں بات ہو رہی تھی کے ایف سی کی تو میں اپنے تمام سننے دیکھنے اور پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ کرونا کی حقیقت کو پالنے والا ہی جانتا ہے لیکن ہم لوگوں کے لیے اس کی ویکسینیشن کروانا ضروری ہو چکی ہے اب تو صرف جی ٹی روڈ بڑے شہروں اور اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور فرنچائز پر ہی پابندی ہے لیکن جلد ہی چھوٹے شہروں اور دیہات میں بھی اس کی پابندی ہو جائے گی کچھ عرصے پہلے تک شناختی کارڈ غیر ضروری سمجھا جاتا تھا میں نے ان بزرگوں کو بھی دیکھا ہے جو دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ان کا شناختی کارڈ نہیں تھا لیکن ہم نے دیکھا کہ سناختی کارڈ کے بغیر گھر سے نکلنا مشکل ہے اور دوسرے شہر جانا ناممکن ہوتا ہے اور اب پوری دنیا کے مطابق ویکسینیشن کے بغیر ایک دوسرے کے ملک میں جانا بلکہ اب تو ایک دوسرے شہر میں جانا بھی مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائیگا دوستوں سے گزارش ہے کہ ویکسینیشن کروانا ضروری ہے تاکہ آپ معمولات زندگی سرانجام دے سکیں منڈی بہاوالدین سے کے ایف سی کھانے کے لئے جہلم جانے والے لوگ بھی ویکسینیشن کے بغیر مت جائیں آپ جتنے بھی طاقتور ہوں یا دولت مند وہ اس چیز پر کمپرومائز نہیں کر رہے بلکہ تمام نیشنل ملٹی نیشنل کمپنیاں اور فرنچائزیں ہوٹل اس بات پر کمپرومائز نہیں کر رہے اس لئے تکلیف سے بچنے کے لئے ویکسینیشن کروائیں اور سوشل فاصلے کو کم کرنے کے لئے بھی ضروری ہے
دعا ہے رب جہاں سے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کی زندگیوں میں صدر آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ہمت دے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں