111

یہ کہاوت تو آپ نے سنی ہو گی کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور

یہ کہاوت تو آپ نے سنی ہو گی کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور مگر اس کا عملی نمونہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جن کے اقتدار میں آنے سے پہلے نعرے اور وعدے پاکستانی عوام سے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے تھے مگر اقتدار میں آنے بعد ایسا یوٹرن لیا کہ اب یہی لوگ اسلام پر حملہ آور ہو گئے ہیں اور اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ تمام پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام قبول کرنا جرم کیوں بنایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے مجوزہ تیار کردہ بل کے مطابق 18سال سے کم عمر افراد اسلام قبول نہیں کر سکتے ہیں اگر کوئی کرتا ہے تو یہ قانوناً جرم ہے۔ 18سال سے زائد عمر کے لوگ جو اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں وہ سیشن جج کو پہلے درخواست دیں گے۔ درخواست دینے کے بعد 90 روز سیشن جج کی نگرانی میں مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کروایا جائے گا، پھر دوبارہ اس کی رضامندی لی جائے گی اور اس سے پوچھا جائے گا کہ وہ اب اسلام قبول کرنا چاہتا ہے یا نہیں اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دے گا تو اسلام قبول کروانے والے لوگوں کے خلاف فوراً جبری تبدیلی مذہب کا مقدمہ درج کر کے کئی سال قید/جرمانہ کی سزا سنائی جائے گی۔ اس بل کی شرعی حیثیت بالکل صفر ہے کیونکہ اس کے پاس ہونے کی صورت میں مسلمان حکومت یہ تسلیم کرے گی کہ سید الاولین والآخرین امام الانبیاء حضرت محمد مصظفیٰ ﷺ نے بھی ( نعوذ باللہ) یہ جرم کیا تھا کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی عمر محض 10 سال تھی اس کے علاوہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر دیگر بنات النبی کی عمریں اور جلیل القدر کئی صحابہ کرام ایسے ہیں جنہوں نے 18 سال سے قبل اسلام قبول کیا۔ کسی کو بھی دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ نہیں کروایا گیا اور نہ ہی ان کے اسلام قبول کرنے کے عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ بل دراصل توہین رسالت، توہین اہل بیت اور توہین صحابہ اور توہین اسلام پر مبنی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے غیر مسلم مغربی آقاؤں کو خوش کرنا مقصود ہے ورنہ اس بل کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اسلام قبول کرنے والے ہزاروں نو مسلم ایسے ہیں جو تنگی تکلیف تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن واپس اپنے باطل مذہب میں جانا پسند نہیں کرتے حالانکہ ان کو کئی طرح کی مراعات کا لالچ بھی دیا جاتا ہے مگر وہ یہ سب ٹھکرا دیتے ہیں۔ کیا یہ بل آئین پاکستان کے خلاف نہیں ہے؟ جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہاں کوٸی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا؟ کیا اس رو سے اسلام کے ساتھ ساتھ آٸین پاکستان پر یہ حملہ نہیں؟ اسلام میں اور آٸین پاکستان میں کہاں پر لکھا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد مذہب تبدیل نہیں کر سکتے یا اسلام قبول نہیں کر سکتے؟ کیا یہ قرآن و سنت کے قانون میں سیدھی مداخلت نہیں؟ یہ ملک اسلام کے نفاذ کے لئے بنایا گیا ہے یہاں جبر زبردستی کوئی تصور نہیں، کسی کا بھی مذہب زبردستی تبدیل نہیں کروایا جاتا سب کو یکساں مذہبی آزادی اور تحفظ حاصل ہے اور اسلام میں جبر نہیں ہے لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے تو اس پر نہ قدغن تھی نہ ہے اور نہ لگنے دیں گے اور مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے بل کی تصدیق ہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت اس بل کو پاس کروانے کےحوالے سے لابنگ کر رہی ہے۔ یہ بل چند مخصوص پارلیمنٹرین کو بھیجا بھی گیا ہے تاہم یہ بل ابھی تک پاس تو نہیں ہوا اور نہ ہی قومی اسمبلی کے فلور پر بحث کے لئے پیش کیا گیا ابھی تک اس مسئلے پر مختلف میٹنگز ہو رہی ہیں۔ یاد رکھیں آج سے چودہ سو سال پہلے 18 سال سے کم عمر اسلام قبول کرنے والوں کو ابو جہل نہیں روک پایا تو یہ موجودہ حکومت کیا روک پائے گی اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے یہاں کوٸی بھی ایسا کالا قانون منظور نہیں ہونے دیا جائے گا جو اسلام یا آِئین پاکستان سے متصادم ہو اور موجودہ حکومت کے اسلام مخالف تمام ناپاک عزائم کو غیور پاکستانی عوام خاک میں ملائے گی۔ انشاءاللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں