115

پاکستان میں سیکورٹی خدشات کی بھرمار

پاکستان میں سیکورٹی خدشات کی بھرمار
اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی اسلامی ریاست ہے اور یہاں پر تقریباً 95 فیصد آبادی مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے، باقی تمام مذاہب کے لوگ بھی یہاں بڑے پر سکون اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے بہت ہی کم واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں اقلیتوں کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے ہیں، اقلیتوں کی عبادات گاہیں ان کے مذہبی تہوار یا دیگر کوئی بھی مذہبی معاملات ہوں اقلیتیں محفوظ ہیں مگر اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ایک مذہب اسلام ایک پیغمبر کا کلمہ پڑھنے والے ایک خدا باری تعالیٰ کی بندگی کرنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں ہی محفوظ نہیں آخر کیوں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان بڑی تعداد میں مسلمانوں کی آبادی والا ملک ہے جو ہر وقت سکیورٹی خدشات سے ہی گزرتا رہتا ہے۔ جمعتہ المبارک ہو تو لاؤڈ سپیکر بند مسجد کے دروازے پر سیکورٹی اہلکار تعینات واک تھرو گیٹ نصب کیونکہ سکیورٹی خدشات، رمضان المبارک سکیورٹی خدشات، عیدالفطر سکیورٹی خدشات، عیدالاضحیٰ سکیورٹی خدشات، محرم الحرام سکیورٹی خدشات، ربیع الاؤل سکیورٹی خدشات، ایوّن سیاست میں سکیورٹی خدشات، اولیاء کرام کے مزرات پر سکیورٹی خدشات، پاکستان میں بہت سے مزار ایسے ہیں جن پر دفعہ 24/7 کے تحت سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں، شہر ہو یا دیہات نماز کی ادائیگی کے کچھ ہی لمحات کے بعد ہی مسجد کے دروازے کو بھاری بھر کم تالے سے سکیورٹی خدشات کے باعث بند کر دیا جاتا ہے۔ ہماری عبادات گاہوں کے اندر نماز کی ادائیگی کے دوران دل میں ایک عجیب سا خطرہ رہتا ہی ہے کہ کہیں پیچھے سے ہمارے جوتے ہی چوری نہ ہو جائیں بلکہ سکیورٹی خدشات ہمارے ملک میں اتنے ہیں کہ راستے میں لگے مسافروں کی سہولت کے لیے نلکے کی ہتھی کی حفاظت کے لئے تالے کی ضرورت ہے، واٹر کولر کے ساتھ لگے ہوئے گلاس کو بھرے بازار میں اس قدر خطرہ لاحق ہے کہ اسے مضبوط لوہے کے زنجیر کی حفاظت چاہیے، آخر کیوں ہمارے ملک میں نمازوں کے اوقات مختلف مساجد میں مختلف ہیں کون سے مسلمان ہیں ہم، آخر ہم کو کن سے اتنا زیادہ خطرہ ہے، ہمیں کسی سے نہیں خود سے ہی خطرہ ہے، ایک اللہ ﷻ اور ایک رسول ﷺ کے ماننے والے ہونے کے باوجود اس ملک میں فرقہ واریت اس قدر ہے کہ مسلکوں کی بھر مار ہے، ان سب حالات کا ذمہ دار کون ہے جب اللہ تعالیٰ ایک نبی پاک ﷺ ایک کلمہ ایک تو اتنے مسلکوں کا مؤجد کون ہے۔ اے اللّه پاک ہم پر اپنا رحم کر اور ایسے حالات میں عوام کو قابو کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے اس سلسلہ میں کس نے کیا رول ادا کیا تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، پوری دنیا میں اس قسم کے حالات دیکھنے کو نہیں ملتے جو ہمارے ملک میں سر زد ہوتے ہیں، ہمارے لوگ اتنے سادہ لوح ہیں، اسلام سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، کوئی بھی پیر صاحب، علامہ صاحب ان کو زبان سے بس کہہ دیں کے فلاں کے خلاف یہ فتویٰ ہے، بس اب بے شک وہ شخص سچا مسلمان ہے پانچ وقت کا نمازی ہے عاشق رسول ﷺ ہے مگر عوام کی عدالت میں اس کے لئے کوئی رعائیت نہیں سیدھا سولی پہ چڑھانےکی جبراً جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔ بس یوں معاملہ ہائی لائیٹ ہوتا ہے اور میڈیا، سوشل میڈیا، پہ واہ ویلے ہوتے ہیں، دنیا میں پاکستان، مسلمان اور اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، پیر صاحب یا علامہ فتویٰ صاحب بڑے خوش ہوتے ہیں، سرکار اور عوام کو ذلیل کر کے، ہمارے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جانے والی یہی طاقتیں ہیں۔ خدارا ان سے بچیئے اسلام کی طرف آئیے اسلام جرم کرنے کے بعد بھی معافی دینے کا درس دیتا ہے، اسلام بھول چوک پہ بلکل کوئی سزا نہیں دیتا، بلکہ اسلام تو اخلاقیات کا درس دیتا ہے ایسا اخلاق جسے دیکھ کر کافروں کے دل بھی اسلام کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ ہمارے علماء حضرات کو چاہیے کہ مساجد میں بچوں بوڑھوں کو اسلام کی مہربانیاں، شفقتیں، صلہ رحمی، بھائی چارہ، سکھائیں، اور پیر صاحبان اپنے اپنے آستانوں پہ اپنے مریدین کو اپنی کرامات کی بجائے اسؤہِ حَسنہ اصحابِ رسول اللّہ ﷺ اور اولیاؒ اللّه کا اخلاق بتائیں، مذہب کے نام کا کارڈ کھیلنے والی بیرونی طاقتوں کو زِیر کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں، ایسی کسی بھی ناگہانی صورتِ حال کے موقع پر مذہبی راہنماؤں کو فرنٹ فُٹ پہ آنا چاہیے اور حالات کے پیشِ نظر عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے نہ صرف مذہبی بلکہ ملکی اور انسانی معاملات کو دیکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہیئے اللّہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں